بچوں کو نصیحت کرنے کے تین اہم مواقع
تحریر/ مفتی رشید احمد خورشید
تحریر/ مفتی رشید احمد خورشید
حضرت عمر ابن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے صاحبزادے ہیں جو ان کے پہلے شوہر حضرت ابوسلمہ رضی اللہ عنہ سے تھے۔جب حضرت ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا،تو حضرت ام سلمہ حضور سرورد دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے عقد نکاح میں آئیں۔ اس وقت عمر ابن ابی سلمہ چھوٹے بچے تھے تو ان کی پرورش اور تربیت پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی۔ وہ اپنے احوال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:”کُنتُ غُلامًا فِی حِجرِ رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم، وکَانَتْ یَدِیْ تَطِْیشُ فی الصَّحفَۃِ، فقَالَ لِیْ: یَاغُلام! سَمِّ اللّٰہَ، وَکُلْ بِیَمِیْنِکَ وَکُلْ مِمَّا یَلِیْک۔”یعنی ”میں چھوٹا تھا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں تھا۔میری عادت تھی کہ کھانا کھاتے وقت کبھی یہاں پلیٹ میں ہاتھ مارتا، کبھی وہاں، میرا ہاتھ پوری پلیٹ میں گھومتا رہتا تھا، اس پر مجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیٹا!بسم اللہ پڑھ کر کھاؤ،اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے سامنے سے کھاؤ۔”
درج بالا حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ بچے کو کھانا کھاتے وقت اس طرح کی مختصر نصیحت کرنا ان مواقع میںسے ایک ہے جس وقت بچہ سیکھنے کے موڈ میں ہوتا ہے اور اگر اس موقع پر بچے سے بات کی جائے تو وہ بات فورا بچے کے دل ودماغ میں پیوست ہوجاتی ہے اور وہ اس کو قبول کرلیتا ہے۔ لہذا بچوں کو اس موقع پر سکھانے کی کوشش کرنی چاہیے، لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے پیارے انداز اور لہجے میں حضرت عمر ابن ابی سلمہ کو سمجھایا۔ پکارنے کا انداز کتنا خوبصورت اختیار کیا؟ تو اگر کھانے کے موقع پر ہی نصیحت کی جائے، لیکن اس میں نصیحت کم اور غصہ زیادہ ہو تو اس کے نتائج انتہائی خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔
ایک بزرگ اپنا واقعہ سنانے لگے کہ میں نیویارک سے پیرس جارہا تھا۔جہاز میں سوار ہوا تو میرے ساتھ والی سیٹ پر ایک انگریز خاتون بیٹھی تھیں۔ اس کا چار پانچ سال کا بیٹا اس کے ساتھ تھا۔ کھانے کا وقت ہوا۔ ایئر ہوسٹس کھانے کے وقت میں چاول لے کر آئی۔ یہ خاتون اپنے بچے کو چاول کھلانے لگی اور جب ایک لقمہ اس بچے کو منہ میں دیا تو بچے کو کہا:Say thank u یعنی بیٹا! اب کہو آپ کا شکریہ۔پھر دوسرا لقمہ دیا، پھر دوبارہ بچے کو کہا:Say thank u، بیٹا ! کہو !شکریہ۔ اس طرح وہ ایک لقمہ بچے کو دیتی اور پھر یہ الفاظ اس بچے سے کہلواتی ۔بزرگ فرماتے ہیں کہ میں نے نوٹ کیا تو اس ایک وقت کے کھانے میں اس نے اپنے بچے سے کم وبیش 60 مرتبہ یہ جملہ کہلوایا اور وہ بچہ بھی ہر لقمے پر مسلسل کہتا رہا:Thank u mom۔ اس سے بھی عجیب تر ایک اور بات یہ کہ کھانا کھلانے کے دوران کچھ چاول اس خاتون کے کپڑوں پر گرگئے، جب بچے نے دیکھا تو فورا اپنی والدہ کو متوجہ کیا کہ اپنے کپڑوں کو صاف کرے۔ جیسے ہی اس خاتون نے اپنے کپڑے صاف کیے تو فورا بیٹے کی طرف متوجہ ہوئی اور کہا: Thank u، بیٹا !شکریہ۔
ہمارے ہاں والدین اولاد کو نصیحت کرتے ہیں، لیکن اس وقت جب وہ اسکول سے تھکے ہارے آتے ہیں، ابھی بستہ رکھا ہی ہوتا ہے کہ نصیحت کا سیشن شروع ہوجاتا ہے۔ اس وقت جب بیٹا کام سے تھکا ہوا آیا تونصیحت آموز گفتگو شروع ہوگئی۔ سفر سے واپسی ہوئی، گھر میں قدم رکھا اور تربیتی مجلس کا آغاز ہوگیا۔ بچہ اپنا ہوم ورک پورا کرکے ذمہ داری سے سبکدوش ہونے کی کوشش کررہاہوتا ہے کہ نصیحت شروع ہوجاتی ہے اور یوں اس کا ہوم ورک بھی نامکمل رہتا ہے اور نصیحت سے بھی کماحقہ فائدہ حاصل نہیں ہوپاتا۔ شیخ الاسلام مولانا شبیراحمد عثمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: حق بات حق طریقے اور حق نیت سے کی جائے تو ضرور اثر کرتی ہے۔ اگر آپ اپنے بچے کو نصیحت کررہے ہیں اور وہ نصیحت اخذ نہیں کررہا، تو سوچا جائے کہ ان تین چیزوں میں سے کس چیز کی کمی ہے۔ حق طریقے کے اندر انداز گفتگو، موقع محل کو سمجھنا سب شامل ہے۔ غلط طریقے اور نامناسب موقع پر حق بات کی جائے تو اس اصلاح سے زیادہ امکانات بگڑنے کے ہوتے ہیں۔ حضور علیہ الصلاۃ والسلام کی سیرت طیبہ کے دیگر تمام پہلووں کی طرح یہ بھی آپ کی سیرت طیبہ کا ایک بہت روشن اور تابناک پہلو ہے کہ بچوں کو کس وقت کس انداز سے نصیحت کی جائے؟
سیرت طیبہ کی روشنی میں بچوں کو سکھانے، سمجھانے اور نصیحت کرنے کا دوسرا موقع وہ ہوتا ہے جب بچہ آپ کے ساتھ گاڑی میں بیٹھتا ہے۔جدید ریسرچ بھی یہ بتاتی ہے کہ اس وقت بچہ لرننگ موڈ میں ہوتا ہے۔ چنانچہ مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ بچے جب گاڑی میں بیٹھتے ہیں تو بہت سارے سوالات کرنا شروع ہوجاتے ہیں: بابا! یہ کیا ہے؟ یہ کون سی جگہ ہے؟ یہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ یہ کیا لکھا ہے؟ اس کو کیا کہتے ہیں؟لوگ اس طرح کیوں کرتے ہیں؟ اس بات کا ہم سب مشاہدہ کرتے ہیں۔ ا س سے معلوم ہوا کہ بچے کو سمجھانے کا ایک موقع یہ بھی ہے اور جب آپ نے اس موقع کو استعمال کرتے ہوئے اس کو کام کی کوئی بات بتادی تو وہ پھر اس کے ذہن میں رہ جاتی ہے۔
حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کم عمر صحابہ میں سے ایک ہیں۔ایسے صحابہ کی تریت کا حضور خاص اہتمام فرمایاکرتے تھے۔ فرماتے ہیں کہ میں حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے ساتھ ایک سفر میں سواری پر پیچھے بیٹھا ہوا تھا توآپ نے فرمایا: ”یَاغُلَام! احفَظِ اللّٰہَ یَحْفَظْکَ، احْفَظِ اللّٰہَ تَجِدْہُ تِجَاہَکَ۔۔۔۔۔۔” ”اے لڑکے! اللہ تعالی کے احکام کی رعایت کرو گے تو اللہ تمہیں اپنی حفاظت میں رکھے گا۔اللہ تعالی کے احکامات کو مان کر چلو،اللہ کا استحضار ہروقت دل میں رکھو، ہر وقت اللہ کو اپنے سامنے پاؤگے۔۔۔۔۔۔” اور مزید بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت قیمتی نصائح ارشاد فرمائے۔ تو یہ دوسرا موقع ہوا اولاد کو، بچوں کو، اپنے زیر تربیت زیرکفالت بچوں کو نصیحت کرنے کا ، سمجھانے کا اور کوئی بات ان کے دل ودماغ تک پہنچانے کا۔
جب بچہ سورہا ہو، اس وقت بھی اگر اس سے میٹھی میٹھی باتیں کی جائیں، انبیائے کرام علیہم السلام کے واقعات اور قصص سنائے جائیں، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے علم وفضل،تقوی للہیت،بہادری اور شجاعت کے واقعات گوش گذار کیے جائیں، صحابیات کی قربانیوں کے ایمان افروزواقعات ان کو بتائے جائیں، اولیاء اللہ، بزرگان دین، ائمہ متبوعین،علمائے امت، فقہائے ملت کے سوانح میں سے کچھ کچھ باتیں ان کو سنائی جاتی رہیں، یہ بھی وہ موقع ہوتا ہے جب بچہ سیکھنے کے موڈ میں ہوتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں تو والدین کی جانب سے بچے کو سلاتے وقت ڈرا دھمکاکر سلادیاجاتا ہے کہ ابھی بلاآرہی ہے، ابھی بَو آرہا ہے، ابھی چڑیل آرہی ہے وغیرہ، تو اس سے بچے کے ذہن میں یہی چیز بیٹھے گی اور بڑا ہوکر نفسیاتی مریض ہی بنے گا۔ مائیں محض اپنی تن آسانی اور راحت جان کے لیے چپل اٹھاکر بچے کے سر پر بیٹھ جاتی ہیں۔ ایک وقت تھا کہ ہمارے ہاں یہ تہذیب اور ثقافت کا حصہ تھا، لیکن اب یہ چیز آہستہ آہستہ ختم ہوگئی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کو اس طرح کے واقعات سنایاکرتے تھے۔ اس کے دوفائدے ہوں گے؛ ایک تو ان کو اچھے لوگوں کے نام یاد ہوتے رہیں گے اور دوسرا یہ کہ نصیحت اور سبق بھی ملتا رہے گا۔ آج ہمارے بچوں کو فلمی اداکاروں، گلوکاروں کے نام یاد ہوتے ہیں، لیکن اگر آپ پوچھ لیں کہ عشرہ مبشرہ میں کون کون سے صحابہ داخل ہیں تو شاید اس کا جواب ان کو نہ آتا ہو؟ کبھی ہم نے غور کیا کہ آخر اس کی کیاوجہ ہے؟ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی اولاد کو یہ سب پتا ہو تو پھر آپ کو محنت کرنی ہوگی۔اس کے لیے آپ کو سیرت کی کتابوں کا مطالعہ کرنا ہوگا۔ ان کتابوں کو اپنے پاس رکھنا ہوگا جن میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے واقعات جمع کیے گئے ہوں۔ اکابر کی سوانح کی کتابیں اپنے پاس رکھنی ہوں گی۔ بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا۔
یہاں تو اختصار کے پیش نظر محض تین مواقع ذکر کیے گئے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے مواقع ہیں جن میں بچہ کو نصیحت کی جائے تو وہ فورا لے لیتا ہے، مثلا بعض بچے بیمار ہوں تو اس وقت وہ سوالات کرتے ہیں۔ بعض بچے جب ننھیال میں ہوتے ہیں تو سوالات کرتے ہیں۔ کچھ بچوں کی طبعیت میں سیکھنے کے جذبات زیادہ ہوتے ہیں، اس کے لیے والدین اپنے بچے کے مزاج ومذاق کی رعایت کرتے ہوئے درست وقت اور موقع کا انتخاب کریں گے تو ان شاء اللہ ان کے محنت بارآور اور ثمر آور ثابت ہوگی۔لیکن یہ اسی وقت آپ کو سوجھیں گے جب آپ اس کو سوچیں اور غور کریں اور اس کو بھی کرنے کا کوئی کام سمجھیں۔
درج بالا حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ بچے کو کھانا کھاتے وقت اس طرح کی مختصر نصیحت کرنا ان مواقع میںسے ایک ہے جس وقت بچہ سیکھنے کے موڈ میں ہوتا ہے اور اگر اس موقع پر بچے سے بات کی جائے تو وہ بات فورا بچے کے دل ودماغ میں پیوست ہوجاتی ہے اور وہ اس کو قبول کرلیتا ہے۔ لہذا بچوں کو اس موقع پر سکھانے کی کوشش کرنی چاہیے، لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے پیارے انداز اور لہجے میں حضرت عمر ابن ابی سلمہ کو سمجھایا۔ پکارنے کا انداز کتنا خوبصورت اختیار کیا؟ تو اگر کھانے کے موقع پر ہی نصیحت کی جائے، لیکن اس میں نصیحت کم اور غصہ زیادہ ہو تو اس کے نتائج انتہائی خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔
ایک بزرگ اپنا واقعہ سنانے لگے کہ میں نیویارک سے پیرس جارہا تھا۔جہاز میں سوار ہوا تو میرے ساتھ والی سیٹ پر ایک انگریز خاتون بیٹھی تھیں۔ اس کا چار پانچ سال کا بیٹا اس کے ساتھ تھا۔ کھانے کا وقت ہوا۔ ایئر ہوسٹس کھانے کے وقت میں چاول لے کر آئی۔ یہ خاتون اپنے بچے کو چاول کھلانے لگی اور جب ایک لقمہ اس بچے کو منہ میں دیا تو بچے کو کہا:Say thank u یعنی بیٹا! اب کہو آپ کا شکریہ۔پھر دوسرا لقمہ دیا، پھر دوبارہ بچے کو کہا:Say thank u، بیٹا ! کہو !شکریہ۔ اس طرح وہ ایک لقمہ بچے کو دیتی اور پھر یہ الفاظ اس بچے سے کہلواتی ۔بزرگ فرماتے ہیں کہ میں نے نوٹ کیا تو اس ایک وقت کے کھانے میں اس نے اپنے بچے سے کم وبیش 60 مرتبہ یہ جملہ کہلوایا اور وہ بچہ بھی ہر لقمے پر مسلسل کہتا رہا:Thank u mom۔ اس سے بھی عجیب تر ایک اور بات یہ کہ کھانا کھلانے کے دوران کچھ چاول اس خاتون کے کپڑوں پر گرگئے، جب بچے نے دیکھا تو فورا اپنی والدہ کو متوجہ کیا کہ اپنے کپڑوں کو صاف کرے۔ جیسے ہی اس خاتون نے اپنے کپڑے صاف کیے تو فورا بیٹے کی طرف متوجہ ہوئی اور کہا: Thank u، بیٹا !شکریہ۔
ہمارے ہاں والدین اولاد کو نصیحت کرتے ہیں، لیکن اس وقت جب وہ اسکول سے تھکے ہارے آتے ہیں، ابھی بستہ رکھا ہی ہوتا ہے کہ نصیحت کا سیشن شروع ہوجاتا ہے۔ اس وقت جب بیٹا کام سے تھکا ہوا آیا تونصیحت آموز گفتگو شروع ہوگئی۔ سفر سے واپسی ہوئی، گھر میں قدم رکھا اور تربیتی مجلس کا آغاز ہوگیا۔ بچہ اپنا ہوم ورک پورا کرکے ذمہ داری سے سبکدوش ہونے کی کوشش کررہاہوتا ہے کہ نصیحت شروع ہوجاتی ہے اور یوں اس کا ہوم ورک بھی نامکمل رہتا ہے اور نصیحت سے بھی کماحقہ فائدہ حاصل نہیں ہوپاتا۔ شیخ الاسلام مولانا شبیراحمد عثمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: حق بات حق طریقے اور حق نیت سے کی جائے تو ضرور اثر کرتی ہے۔ اگر آپ اپنے بچے کو نصیحت کررہے ہیں اور وہ نصیحت اخذ نہیں کررہا، تو سوچا جائے کہ ان تین چیزوں میں سے کس چیز کی کمی ہے۔ حق طریقے کے اندر انداز گفتگو، موقع محل کو سمجھنا سب شامل ہے۔ غلط طریقے اور نامناسب موقع پر حق بات کی جائے تو اس اصلاح سے زیادہ امکانات بگڑنے کے ہوتے ہیں۔ حضور علیہ الصلاۃ والسلام کی سیرت طیبہ کے دیگر تمام پہلووں کی طرح یہ بھی آپ کی سیرت طیبہ کا ایک بہت روشن اور تابناک پہلو ہے کہ بچوں کو کس وقت کس انداز سے نصیحت کی جائے؟
سیرت طیبہ کی روشنی میں بچوں کو سکھانے، سمجھانے اور نصیحت کرنے کا دوسرا موقع وہ ہوتا ہے جب بچہ آپ کے ساتھ گاڑی میں بیٹھتا ہے۔جدید ریسرچ بھی یہ بتاتی ہے کہ اس وقت بچہ لرننگ موڈ میں ہوتا ہے۔ چنانچہ مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ بچے جب گاڑی میں بیٹھتے ہیں تو بہت سارے سوالات کرنا شروع ہوجاتے ہیں: بابا! یہ کیا ہے؟ یہ کون سی جگہ ہے؟ یہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ یہ کیا لکھا ہے؟ اس کو کیا کہتے ہیں؟لوگ اس طرح کیوں کرتے ہیں؟ اس بات کا ہم سب مشاہدہ کرتے ہیں۔ ا س سے معلوم ہوا کہ بچے کو سمجھانے کا ایک موقع یہ بھی ہے اور جب آپ نے اس موقع کو استعمال کرتے ہوئے اس کو کام کی کوئی بات بتادی تو وہ پھر اس کے ذہن میں رہ جاتی ہے۔
حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کم عمر صحابہ میں سے ایک ہیں۔ایسے صحابہ کی تریت کا حضور خاص اہتمام فرمایاکرتے تھے۔ فرماتے ہیں کہ میں حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے ساتھ ایک سفر میں سواری پر پیچھے بیٹھا ہوا تھا توآپ نے فرمایا: ”یَاغُلَام! احفَظِ اللّٰہَ یَحْفَظْکَ، احْفَظِ اللّٰہَ تَجِدْہُ تِجَاہَکَ۔۔۔۔۔۔” ”اے لڑکے! اللہ تعالی کے احکام کی رعایت کرو گے تو اللہ تمہیں اپنی حفاظت میں رکھے گا۔اللہ تعالی کے احکامات کو مان کر چلو،اللہ کا استحضار ہروقت دل میں رکھو، ہر وقت اللہ کو اپنے سامنے پاؤگے۔۔۔۔۔۔” اور مزید بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت قیمتی نصائح ارشاد فرمائے۔ تو یہ دوسرا موقع ہوا اولاد کو، بچوں کو، اپنے زیر تربیت زیرکفالت بچوں کو نصیحت کرنے کا ، سمجھانے کا اور کوئی بات ان کے دل ودماغ تک پہنچانے کا۔
جب بچہ سورہا ہو، اس وقت بھی اگر اس سے میٹھی میٹھی باتیں کی جائیں، انبیائے کرام علیہم السلام کے واقعات اور قصص سنائے جائیں، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے علم وفضل،تقوی للہیت،بہادری اور شجاعت کے واقعات گوش گذار کیے جائیں، صحابیات کی قربانیوں کے ایمان افروزواقعات ان کو بتائے جائیں، اولیاء اللہ، بزرگان دین، ائمہ متبوعین،علمائے امت، فقہائے ملت کے سوانح میں سے کچھ کچھ باتیں ان کو سنائی جاتی رہیں، یہ بھی وہ موقع ہوتا ہے جب بچہ سیکھنے کے موڈ میں ہوتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں تو والدین کی جانب سے بچے کو سلاتے وقت ڈرا دھمکاکر سلادیاجاتا ہے کہ ابھی بلاآرہی ہے، ابھی بَو آرہا ہے، ابھی چڑیل آرہی ہے وغیرہ، تو اس سے بچے کے ذہن میں یہی چیز بیٹھے گی اور بڑا ہوکر نفسیاتی مریض ہی بنے گا۔ مائیں محض اپنی تن آسانی اور راحت جان کے لیے چپل اٹھاکر بچے کے سر پر بیٹھ جاتی ہیں۔ ایک وقت تھا کہ ہمارے ہاں یہ تہذیب اور ثقافت کا حصہ تھا، لیکن اب یہ چیز آہستہ آہستہ ختم ہوگئی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کو اس طرح کے واقعات سنایاکرتے تھے۔ اس کے دوفائدے ہوں گے؛ ایک تو ان کو اچھے لوگوں کے نام یاد ہوتے رہیں گے اور دوسرا یہ کہ نصیحت اور سبق بھی ملتا رہے گا۔ آج ہمارے بچوں کو فلمی اداکاروں، گلوکاروں کے نام یاد ہوتے ہیں، لیکن اگر آپ پوچھ لیں کہ عشرہ مبشرہ میں کون کون سے صحابہ داخل ہیں تو شاید اس کا جواب ان کو نہ آتا ہو؟ کبھی ہم نے غور کیا کہ آخر اس کی کیاوجہ ہے؟ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی اولاد کو یہ سب پتا ہو تو پھر آپ کو محنت کرنی ہوگی۔اس کے لیے آپ کو سیرت کی کتابوں کا مطالعہ کرنا ہوگا۔ ان کتابوں کو اپنے پاس رکھنا ہوگا جن میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے واقعات جمع کیے گئے ہوں۔ اکابر کی سوانح کی کتابیں اپنے پاس رکھنی ہوں گی۔ بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا۔
یہاں تو اختصار کے پیش نظر محض تین مواقع ذکر کیے گئے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے مواقع ہیں جن میں بچہ کو نصیحت کی جائے تو وہ فورا لے لیتا ہے، مثلا بعض بچے بیمار ہوں تو اس وقت وہ سوالات کرتے ہیں۔ بعض بچے جب ننھیال میں ہوتے ہیں تو سوالات کرتے ہیں۔ کچھ بچوں کی طبعیت میں سیکھنے کے جذبات زیادہ ہوتے ہیں، اس کے لیے والدین اپنے بچے کے مزاج ومذاق کی رعایت کرتے ہوئے درست وقت اور موقع کا انتخاب کریں گے تو ان شاء اللہ ان کے محنت بارآور اور ثمر آور ثابت ہوگی۔لیکن یہ اسی وقت آپ کو سوجھیں گے جب آپ اس کو سوچیں اور غور کریں اور اس کو بھی کرنے کا کوئی کام سمجھیں۔
No comments:
Post a Comment